Ads 468x60px

Featured Posts

Sunday, October 13, 2013

Peshawar Musuem

[h=3]Peshawar archaeological Museum
The Peshawar Museum is one of the most popular museums in south east Asia specially for its Buddhist sculptures fro Gandhara Period. It was founded in 1907. Its red bricks building consist of spacious hall, for side galleries two on the ground and two on upper story. The main hall and three galleries are reserved for exhibition of Ghundjara Sculptures, terracotta figurines, lithic inscriptions, toilet, trays, household objects etc. we can see the colossal standing Buddha and a large number of Buddha heads in various sizes both in stone and stucco are on display here.
History
The present main hall was built in 1906-07 in the memory of Queen Victoria at the cost of Rs. 60000, out of which Rs. 45000 were donated by the public of Khyber Pakhtoonkhwa and Rs. 15000 by the Director General of Archaeology, India.
After completion of the building, the museum was set up in November 1907 to house the Gandharan Sculptures excavated from the major Gandharan sites of Shah-Ji-Ki-Dheri Peshawar, Sahri Bahlol, Takht-i-Bahi in the Mardan District and later from Jamal Garhi and other Gandharan sites excavated by British scholars. The two storey building, an amalgamation of the British and Mughal architectures, originally consisted of a main hall and two side aisles on the ground and first floor, surmounted by four elegant cupolas and small pinnacles on all the corners. On Ihe eastern and western side of the building, two halls were added in similar fashion in 1969-70 (one on each side). In 1974-75, The second storey was added to these side halls .
A new block under the project "Extension of Peshawar Museum ", was approved in the year 2002 at a cost of Rs. 33.11 million. 11 has two components, extension of the museum for constructing an Islamic Block with two galleries, a conservation laboratory, two halls for the reserve collection, offices of the Provincial Directorate and a Cafeteria and complete remodeling of the existing building by replacing the show cases, lighting, labeling, display 1I7 all the galleries of the existing main building, along with revall1pment of the floor and ceiling etc.
This new Islamic Block, located behind the main building, is due to be completed in 2005, while the work on the remodeling in the existing building of the museum will commence soon, which will bring our display and exhibition in line with the developed world
[IMG]The other sections of museum covered the era of Muslims and Tribal. The prize possession of the museum is however, the Kanishka casket recovered from Shah-ji-Dheri on the outskirts of Peshawar during the archeological excavations conducted in 1908-9. The inscribed casket in Kharosti contained three fragments of bone of the Buddha, which were given by the British Government to the Buddhist Society of Burma, which re-shrined them at Madalay. This famous casket is on display in this museum.
There are some engraved gems, pottery, ivory shells and metal objects. Electrotypes of the early coins of the northwest frontier and lithic inscriptions in Kharoshti, sardar garhi.


[/h]
The other sections of museum covered the era of Muslims and Tribal. The prize possession of the museum is however, the Kanishka casket recovered from Shah-ji-Dheri on the outskirts of Peshawar during the archeological excavations conducted in 1908-9. The inscribed casket in Kharosti contained three fragments of bone of the Buddha, which were given by the British Government to the Buddhist Society of Burma, which re-shrined them at Madalay. This famous casket is on display in this museum.
There are some engraved gems, pottery, ivory shells and metal objects. Electrotypes of the early coins of the northwest frontier and lithic inscriptions in Kharoshti, sardar garhi.
[TABLE="width: 90%, align: center"]
[TR]
[TD="align: center"][IMG][/TD]
[/TR]
[/TABLE]
The coins collection of Peshawar Museum, 8625 items in all (stores and display excluding the newly excavated), includes Punch marked coins, and coins from the Indus Greeks, Scytho-Parthians, Kushans, White Huns, and Hindu Shahis.
Also included are Islamic coins of the Ghaznavids, Ghaurids, Slave Dynasties, Tughlaqs, Lodhis, Mughals, Durranis, Sikh and British periods. The coins are in Gold, Silver, Copper and Billon. These coins are found in round, square and rectangular shapes.

[IMG]


to Indrasala Cave
Schist, h. 78cm
From Mamane Dheri,Gandhara
3rd century
Peshawar Museum
[IMG]
- See more at: http://www.tafreehmella.com/threads/peshawar-archaeological-museum.180941/#sthash.efjZNzSe.dpuf

کراچی کی یہودی مسجد

یہودی قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
یہودی قبرستان کا ایک منظر — فوٹو — اختر بلوچ


قیامِِ پاکستان کے بعد ہم نے کراچی میں تاج برطانیہ کے دور میں شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افراد کے ناموں سے منسوب تمام عمارتوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کر دیے۔ یہ کوشش تا حال جاری ہے۔
یہ ہی سب کچھ ہم نے یہود و ہنود کے ساتھ بھی کیا۔ یہود و ہنود کی حد تک تو ہم کسی سطح تک کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن تاج برطانیہ کے حوالے سے ہم کہیں کہیں ناکام بھی رہے۔
یہود سے ہماری نفرت دیرینہ ہے۔ اس کا احساس ان کو بھی تھا اس لیے وہ آہستہ آہستہ یہاں سے بیرونِ ملک خصوصاََ اسرائیل منتقل ہو گئے۔
یہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ملکہ مشرق کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ ایک ہیکل اور سیمٹری ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ تعلیم یافتہ اور خاصے خوشحال ہیں۔
ایٹکن کی مولفہ سندھ گزیٹیر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی آبادی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد صرف 428 ہے۔ یہ سب تقریباََ کراچی میں آباد ہیں۔ اکثر کا تعلق بنی اسرائیل برادری سے ہے۔
محمد عثمان دموہی اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے‘ میں کے صفحہ نمبر 652 پر لکھتے ہیں کہ کراچی میں یہودیوں کا صرف ایک قبرستان تھا جو پرانا حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ یہ بنی اسرائیل قبرستان کہلاتا تھا۔ اس حوالے سے محمودہ رضویہ لکھتی ہیں؛
پرانی جوئین سمیٹری عثمان آباد سے ملحق ہے اور حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں بنی اسرائیل (یہودیوں)کا قبرستان ہے۔
محمودہ رضویہ نے کراچی میں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو تلاش کرنے سے قبل ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو یہودی کراچی سے اسرائیل منتقل ہوئے وہ کس حال میں ہیں اور کراچی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
سولجر بازار کا ڈینئل 
اس بارے میں معروف قلم کار اور صحافی محمد حنیف جنھوں نے خوش قسمتی سے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ ہیں ۔ ان کا ایک مختصر سفرنامہ بی بی سی سے نشر ہوا تھا۔ جسے بعد ازاں نام ور ادیب اجمل کمال نے اپنے سہ ماہی جریدے آج کے شمارے نمبر 35 مطبوعہ 2001 میں شائع کیا تھا۔
محمد حنیف اسرائیل کے دورے کے دوران ایک تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آخر میں کسی منتظم کو خیال آیا کہ میں نے تقریر نہیں کی۔ مجھے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔ میں نے کہا کہ میرا تعلق ہندوستان سے نہیں کراچی سے ہے۔ میں تو یوں ہی کام سے آیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ میری بات سن کر پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے پکی رنگت اور فربہ جسم کے ایک چالیس پینتالیس سالہ آدمی نے زور سے سسکی لی۔ میں اسٹیج سے اترا تو اس نے آکر میرا ہاتھ پکڑا، ایک کونے میں لے کر گیا اور گلے لگایا۔ یہ سولجر بازار کراچی کا ڈینئل تھا۔
“میں نے 68 کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا”
اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا؛
میں وہاں انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد تھی۔ سن 67 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی”۔”
پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، “ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی لوگ اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے ہیں۔ آپ سولجر بازار کے ظفر خان کو جانتے ہو؟”
ڈینئل ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی یہودی لڑکی سے شادی کر رکھی ہے۔ دو بچے بھی ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ کراچی ضرور دیکھ لے۔
“سنا ہے آج کل پھر کوئی فوج وغیرہ کی حکومت ہے وہاں، وہی چلا سکتے ہیں اپنے ملک کو بس۔”
باتوں باتوں میں ڈینئل نے بتایا اس کا اسرائیل, خاص طور پر رام الله میں دل نہیں لگتا۔
میں نے پوچھا کیوں؟
آپ کو پتا ہے کہ ہم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی طبیعت میں بڑا فرق ہے۔ یہ لوگ ہمیں کبھی پسند نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی ان کے ساتھ نہیں بنتی۔ ہمارے یہاں پر صرف تین چار خاندان ہیں۔ میری بیوی بھی ہندوستانی ہے لیکن وہ اپنے لوگوں والی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ سب تو آپ کے یہودی بھائی ہیں۔  کہنے لگے ‘ہاں ہاں لیکن ہیں تو ہندوستانی!’
بنی اسرائیل ٹرسٹ 
bene israel trust
ذکر ہو رہا تھا کراچی میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کا۔ ان میں سب سے مشہور (Magain Shalome Synagogue (Bani Israel Trust کی عمارت تھی جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ یہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر واقع ہے۔ جہاں اب اس کی جگہہ مدیحہ اسکوائر کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔
madiha square - 670
کل کی یہودی مسجد، آج کا مدیحہ اسکوائر — فوٹو — اختر بلوچ –.
ہمارے دوست قاضی خضر حبیب نے اس سلسلے میں ہماری خاصی مدد کی۔ ان کے مطابق بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی ریشل جوزف نامی خاتون تھیں جنہوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی احمد الہٰی ولد مہر الہٰی کے نام کر دیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ تعمیر کی جائے گی۔
نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں اور پہلی منزل پر عبادت گاہ بھی۔ مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ ہیں۔ ریشل جوزف اور مختلف افراد کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی جس میں ریشل اور ان کے اٹارنی کو کامیابی حاصل ہوئی۔
ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں ہم نے اپنے ایک وکیل دوست جناب یونس شاد کے زریعے ان کے وکیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ پہلے لندن منتقل ہوگئیں تھیں۔
6 مئی2007 کو روزنا مہ ڈان میں شائع ریما عباسی اپنے ایک مضمون میں ریشل سے گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں. یہ گفتگو یہودی قبرستان کے حوالے سے ہے۔ جس کی وہ آخری کسٹودین تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ 2007 تک کراچی میں موجود تھیں۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلی گئیں۔
یہودی قبرستان 
 اگلا مرحلہ یہودی قبرستان جانے کا تھا۔ ہم نے اپنے ایک صحافی دوست اسحاق بلوچ جو گولیمار کے رہا ئشی ہیں سے اس سلسلے میں مدد چاہی ۔انھوں نے بتایا کہ قبرستان کی نگرانی ایک بلوچ خاندان کرتا ہے۔ وہ ایک بار وہاں گئے تھے۔ بلوچ خاندان نے بہ مشکل انھیں اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ بھی بغیر کیمر ے کے۔ ہم مایوس ہو گئے۔
اسحاق بلوچ نے ہمیں کہا کہ اس سلسلے میں نوجوان صحافی ابوبکر بلوچ سے بات کریں۔ ان کے رشتے داروں کے قبرستان کے نگران خاندان سے تعلقات ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ابوبکر بلوچ سے بات کی اور ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اتوار کے دن میوہ شاہ قبرستان جا کر کوشش کریں گے.
قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
قبرستان کا ایک منظر — فوٹو — اختر بلوچ
اتوار کے دن ہم ابوبکر کے گھر لیاری کے علاقے نوالین پہنچے اور وہاں سے میوہ شاہ قبرستان۔ ابوبکر نے ایک پھولوں کی پتیاں بیچنے والی خاتون کی جانب اشارہ کیا۔ ہم نے جیسے ہی انھیں سلام کیا تو انھوں نے ناگوار نظر وں سے ہماری جانب دیکھا۔ انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم پھولوں کی پتیاں خریدنے نہیں آئے۔ وہ اردو میں بولیں تم لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ میں نے ابوبکر کی جانب دیکھا۔ اُس بے چارے نے بلوچی میں کسی شریف بھائی کا حوالہ دیا۔
خاتون نے نازبو کے ڈنٹھل صاف کرتے کرتے ہماری طرف کچھ حیرت سے دیکھا اور پھر اردو میں اپنا پرانا جواب دہرایا۔ لیکن اب ان کے لہجے میں پہلی والی شدت نہیں تھی۔ ہم نے بھی بلوچی کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان سے بلوچی میں قبرستان دیکھنے کی اجازت چاہی۔
اب انھوں نے ہم سے بلوچی میں گفتگو شروع کی۔ ان کے لہجے سے دُر شتگی تقریباََ ختم ہو چکی تھی۔ انھوں نے کہا پہلے بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ فوٹو بنا کر چلے گئے۔ ہم کو بڑا آسرا دیا کہ قبرستان ٹھیک کروا دیں گے۔ اس کی چار دیواری اونچی کروادیں گے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چار دیواری بھی ہم نے اونچی کروائی ہے نہیں تو لوگ سنگ مر مر کے پتھر بھی لے جاتے۔
انھوں سے بتایا کہ قبرستان میں 500 سے زیاہ قبریں ہیں۔ ہم لوگوں کو قبرستان کی حفاظت کرتے ہوئے 100 سال سے زیادہ کا عر صہ ہو گیا ہے۔
گفتگو کے دوران وہ ہمیں بار بار اس بات کا احساس دلاتی رہیں کہ ہمیں اندر جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔ لیکن ہم نے اپنی کوشش جاری رکھیں۔ آخر زِچ ہوکر انھوں نے کہا کہ ہم پیر والے دن ایک بجے آجائیں اور ان کے بیٹے سے ملیں۔
ہم تقریباََ مایوس ہو چکے تھے۔ اتنی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب آکر رکی اور اس سے ایک نوجوان اترا۔ جو لنگڑا کر چل رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک اسٹک بھی تھی۔ یہ خاتون کا بیٹا عارف تھا۔ عارف نے ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کی والدہ نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا۔
عارف نے بھی اردو میں بتایا کہ ہم اندر نہیں جا سکتے۔ لیکن لہجے میں ماں والی درشتگی نہیں تھی۔ ہم نے عارف سے بھی دوبارہ بلوچی میں درخواست کی، ان کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ قبولیت کے آثار دیکھ کر ہم نے انہیں بتایا کہ ہم صرف قبرستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاصی بحث کے بعد وہ راضی ہو گئے۔ لیکن شرط لگائی کہ صرف ایک آدمی ان کے ساتھ چلے۔ ہم نے شرط مان لی۔
دائیں - اختر بلوچ، بائیں - عارف بلوچ
دائیں – اختر بلوچ، بائیں – عارف بلوچ
یوں ہم قبرستان کے اندر داخل ہو گئے۔ اگلا مرحلہ تصویریں بنانے کا تھا۔ قبرستان کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹاپڑا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ جیب سے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانی شروع کی۔ عارف نے میری طرف دیکھا اور بلوچی میں بولا جتنی چاہو بنا لو یار بلوچ بھائی ہو۔
قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
قبرستان کا ایک منظر — فوٹو — اختر بلوچ
اس دوران عارف نے بھی اپنی والدہ والی باتیں دہرائیں اور بتایا کہ پہلے وہ جھاڑیاں وغیرہ خود صاف کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ دنوں ان کا موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس لیے اب ان کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہے۔
عارف نے مزید بتایا کہ تقریباََ ایک سال قبل ایک شخص ان کے پاس آیا تھا جس نے بتایا کہ شیرٹن ہوٹل میں کچھ لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ہوٹل گئے تو 4 لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے قبرستان کا تفصیلی حال احوال لیا۔ مگر قبرستان دیکھنے نہیں آئے۔
graves-670
قبرستان کا ایک منظر — فوٹو — اختر بلوچ –.
عارف کے مطابق کبھی کبھار لوگ آتے ہیں تصویریں بناتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہودیوں کو شُکر ادا کرنا چاہیئے کہ ان کی قبروں کے نگران بلوچ ہیں ورنہ یہودی مسجد کا تو آپ کو پتہ ہے نا کیا حال ہوا

Saturday, October 12, 2013


http://www.express.pk/story/180510/

یہ کم و بیش چار سو پندرہ سال قبل کا ذکر ہے، جب ہند اور سندھ پر مغلوں کی حکومت تھی۔
ایک دن مغلیہ دور کے گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین، جو خانِ زمانہ کے نام سے مشہور تھا، کی نظر دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سکھر کے قریب واقع جزیرے پر قائم ایک چھوٹی سی ٹیکری (پہاڑی) پر پڑی۔ روہڑی کے کنارے جنوب مشرق میں موجود چھوٹی سی ٹیکری کی قدرتی کشش نے خان زمانہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ دریائے کے عین درمیان قدرتی کاری گری کے اس نمونے سے متاثر ہوکر گورنر سندھ نے اس ٹیکری پر پڑاؤ ڈال دیا۔ بہ وقت سحر سورج کی شعاعوں اور شب تاریک میں چاند کی کرنوں کے دریائی لہروں پر پڑنے کے دل فریب نظارے نے خان زمانہ کو سحر زدہ کردیا اور گورنر سندھ قدرت کی صناعی پر عش عش کر اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکری کو اپنی بیٹھک بنانے پر مجبور ہوگئے۔
تاریخ میں اس جگہ نے قاسم خوانی جب کہ عرف عامہ میں ’’ستین جو آستان‘‘ یا ’’سات سہیلیوں کا آستانہ‘‘ کے نام سے جو شہرت پائی ہے وہ سندھ کے کم ہی مقامات کو حاصل ہے۔ ستین جو آستان کے سیدھے ہاتھ پر بکھر آئی لینڈ، عقب میں لینس ڈائون برج، سامنے سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کی موجودگی نے اس مقام کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیے ہیں اور اس کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے، جب کہ آستان کے الٹے ہاتھ پر انگریز دور کے دفاتر آج بھی قائم ہیں۔
اس مقام کے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آنے والی ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہاں سات کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجاداہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اوباش لوگوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ اے اﷲ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔‘‘ ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں ، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔
اس کے برعکس تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
تاریخی حوالہ جات سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم دریائے سندھ کو سب ہی انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انگریز دور ہو، مغل بادشاہت ہو یا پھر موجودہ زمانہ، ہر دور میں سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دریائے سندھ کو راہ گزر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انگریز اور مغلیہ دور میں مشہور ہونے والی اکثر شخصیات کی وجہِ شہرت ان کے کارنامے اور ان کی شاہ کار تعمیرات تھیں۔ مغلیہ دور میں سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین نے بھی دریائے سندھ کے کنارے اس ٹیلے کو شاید ایسی ہی کسی تعمیر کے لیے چُنا، جو اس کے نام کو دوام عطا کردے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیاگیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) ضلع کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ روہڑی ہل، دادو میں واقع کیر تھر پہاڑی سلسلے یکساں نظر آتے ہیں۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ کے وسیع پہاڑی علاقے میں کالا پتھر جسے (CHERT) موجود ہے اور اکثر تعمیرات میں یہ چیز نظر بھی آتی ہے اور طویل عرصے سے انسان ان پتھروں کا استعمال کررہا ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاری گروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی وفارسی زبان میں قبروں کے اوپر نقش و نگاری کی۔
ستین جو آستان کو مختلف زادیوں سے دیکھا جائے تو اس میں مغلیہ دور کے ماہر کاری گروں نے چھوٹے اور بڑے 12مینار تعمیر کیے، جن میں سے چار مینار جس پر ماہر کاری گروں نے کاشی کا خوب صورت استعمال کیا ہے، مسجد نما بارہ دری ہیں، چار مینار ابوقاسم اور اس کے خاندان کی قبروں کے تعمیر کردہ پلیٹ فارم کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ چار چھوٹے مینار لینس ڈائون برج کے نزدیک دوسرے پلٹ فارم پر بھی تعمیر کیے گئے تھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ کاری گروں نے مینار، حجرے اور آستان کی تعمیر میں کاشی، مضبوط ٹائلز، چونا ، ریت اور پہاڑی پتھر کا خوب صورت انداز سے استعمال کیا۔
ماہر کاری گروں نے جن کا تعلق راجستھان سے بتایا جاتا ہے، ماہرانہ انداز سے پتھر کو کاٹ کر اس پر اعلیٰ قسم کی کاشی اور ٹائلز کا استعمال کرکے اسے ایک شان دار عمارت میں تبدیل کیا۔ خان زمانہ کی محفل کے موقع پر سیکیوریٹی کے انتظامات کے لیے اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے سیڑھیوں کے نزدیک دائیں بائیں تعمیر کیے گئے دو کمرے آج بھی نظر آتے ہیں۔ وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین اور اس کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں کی تیاری اس پر خطاطی اور دل کش نقش و نگاری کیے ہندوستان کے بہترین کاری گروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ان کاری گروں کی بہت سی نشانیاں چوکھنڈی، مکلی اور ٹھٹھہ کے دیگر قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ راجستھان کے وسیع علاقے میں بھی موجود ہے۔ ستین جو آستان میں مدفون لوگوں کو رتبے کے حساب سے تدفین کیا گیا۔ خانِ زمانہ میر ابو قاسم المعروف نمکین گورنر سندھ کو سب سے اونچے مقام پر مدفن کیا گیا۔ سابق گورنر کے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور قریبی تعلقات رکھنے والوں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
ان کاری گروں کی معاونت کرنے والے اہل کاروں اور ان کے خاندانوں کے لوگوں کے لیے چونے اور ریت سے قبریں تیار کرائی گئیں، ستین جو آستان میں چار مختلف پلیٹ فارم تعمیر کیے گئے تھے، جن میں پہلے پلیٹ فارم پر قبروں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچے، دوسرے پلیٹ فارم پر سابق گورنر کے خدمت گار، تیسرے پلیٹ فارم پر عزیز و اقارب، چوتھے اور آخری پلیٹ فارم پر ابو قاسم المعروف نمکین اور ان کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔
ستین جو آستان میں کم و بیش 100چھوٹی و بڑی قبریں موجود ہیں، جن پر اکبر اعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔ سابق گورنر اور اس کے عزیز و اقارب کی اصل قبریں سیڑھیوں کے دائیں اور بائیں تعمیر ہونیوالے کمروں میں ہیں، جب کہ ستین جو آستان کے آخری پلیٹ فارم پر بنائے جانیوالی قبریں نشانی کے طور پر تعمیر کرائی گئی ہیں۔
4 سو سال قبل خان زمانہ کی جانب سے بنائے جانے والے ستین جو آستان پر آمد و رفت کے دشوار گزار راستوں سے گزار کر آخری سرے پر پہنچنا پڑتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی، صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ستین جو آستان پر اوپر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی جو کہ آج تک قائم ہیں۔
ماضی میں دریائے سندھ کا رخ اروڑ کی جانب تھا، سابق گورنر المعروف نمکین نے دریائے سندھ پر ایسے مقام کا انتخاب کیا جو ریمپ نمونہ تھا، سطح زمین سے اندازے کے مطابق 40 فٹ اوپر تعمیرات کا آغاز کیا، 4 سو سال قبل بکھر (سکھر) کا عروج ہوا کرتا تھا اور دریائے سندھ سکھر کے مقام پر سادھو بیلہ، جیئند پیر (زندہ پیر) اور بکھر آئر لینڈ جزیرے موجود تھے جو کہ آج بھی ہے۔
خان زمانہ سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں فروٹ میں سب سے زیادہ خربوزہ پسند تھا، ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی تیار کرائی جاتی تھی، مقامی خربوزہ انتہائی لذیذ ہوا کرتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابو قاسم خربوزے کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کی بھی خاطر تواضع خربوزے سے کیا کرتے تھے۔
موئن جو دڑو، لاکھین جو دڑو کی تباہی کے بعد کچھ عرصے کیلئے راجہ داہر کے دور میں اروڑ آباد ہوا تاہم مختصر وقت کے بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر کو آباد کیا گیا اور مغلیہ دور میں ابو قاسم نے اس جگہ (ستین جو آستان) کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ شاعری مزاج سابق گورنر اکثر چاند راتوں میں محفل جمایا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ستین جو آستان کو بھی نقصان پہنچا، تعمیر ہونے والے 12میناروں میں سے چند ایک کے علاوہ تمام مینار خستہ حال ہوچکے ہیں۔ ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون (پہاڑی پتھر) تیزی سے خراب ہورہا ہے اور ایک لیئر کی طرح ہوا، نمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو پیالے کے مانند نظر آتے ہے۔
سرزمین سندھ کو باب الاسلام کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ صوفیوں، درویشوں اور اولیائے کرام کی مرہون منت درجۂ شہرت پانے والی سرزمین سندھ کو ایک خاص اعزاز حاصل ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بیدل بیکس، خیر الدین شاہ المعروف جئے شاہ بادشاہ، پیر امیر محمد شاہ المعروف مکی شاہ بابا، صدر الدین شاہ بادشاہ و دیگر صوفیاء و اولیاء کرام کے علم و عمل کی وجہ سے یہ خطہ بھائی چارے کا مرکز بنا رہا۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ شہر سمیت دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔
ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) پر گذشتہ سات سال سے مجاور کے فرائض انجام دینے والی بیوہ شوکت خواجائی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھر سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد یہاں اپنی گود بھرنے کے لیے منت مانگنے کے لیے آتی ہیں، اولاد ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم اس میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم ایک صدی سے ہمارے بڑے یہاں پر فرائض انجام دینے کے علاوہ خدمت گاری کررہے ہیں، انہیں کی دی گئی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر آنے والی بانجھ اور بیماریوں میں مبتلا خواتین کو سات سہیلیوں کے مزار کے اندر موجود حجرے میں ایک رسم کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خاتون کی کمر پر تالا باندھنے کے علاوہ حجرے میں موجود جھولوں پر مختلف رنگ کے دھاگے باندھے جاتے ہیں۔
منت مانگنے والی خواتین کو اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے، میں یومیہ 10گھنٹے دور دراز علاقوں سے آنے والی کم و بیش ایک درجن خواتین کو دینی تعلیم کے علاوہ ایک عرصہ سے چلنے والی رسوم و رواج کے حوالے سے آگاہ کرتی ہوں، سب پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اولاد دینا اﷲ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کسی بھی شخص کو کچھ نہیں دے سکتا۔ تاہم عقیدت مند خواتین کی بڑی تعداد سات سہیلیوں کے مزار پر آکر ہم سے ملاقات کرتی ہے اور جو بھی ہوتا ہے، ہم انہیں مفید مشورے دیتے ہیں سب سے پہلے لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی معائنہ کرانا شامل ہے۔ مزید بتایا کہ یہاں آنے والی خواتین سے کسی بھی قسم کی رقم وصول نہیں کی جاتی، تاہم خوشی سے جو بھی نذرانہ دیتا ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سات سہیلیوں کے انڈر گرائونڈ چار کمرے (حجرے) موجود ہیں، جن میں صدیوں پرانی پہاڑی پھٹنے کی نشانی بھی واضح ہے۔ اسی طرح اروڑ کے نزدیک بھی پہاڑ پھٹنے کی نشانیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر خواتین کے مسائل معلوم کرکے انہیں روحانی علاج بتاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے بیٹھنے کے لیے کمرے، خواتین کی حاجت پوری کرنے کے لیے بیت الخلاء خستہ حال ہوچکے ہیں، ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو تحریری درخواستیں دیں مگر آج تک تختی لگانے کے علاوہ کسی بھی قسم کا کام نہیں ہوا۔
روہڑی سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ مسماۃ رابعہ اور اس کی نند مسماۃ سبحانہ کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے یہاں پر خدمات انجام دینے والی مجاورہ سے دم کرانے آرہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ یہاں پر آنے سے بیمار بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ آج میں اپنے ایک سالہ بیٹے بلال کو لے کر آئی ہوں، جو کئی دن سے بخار میں مبتلا ہے، میں نے یہاں آکر دعا مانگی ہے اور دم بھی کرایا ہے، اس کی بدولت مجھے امید ہے کہ اس کی صحت میں بہتری آئے گی۔
شہر سمیت ملک و بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں کو لینس ڈائون برج اور سات سہیلیوں کے مزار کے درمیان گہرے پانی کی کشتی میں سیر کرانے والا 52سالہ محمد اسحاق میر بحر المعروف جوگی فقیر کا کہنا ہے کہ میرے آبائو اجداد کا کام دریا میں کشتی چلانا، مچھلی پکڑنا، کھیتوں سے تیار فصلوں کو شہر تک پہنچانا تھا۔ میں گذشتہ 15سال سے ستین جو آستان پر بلامعاوضہ صفائی ستھرائی کرتا ہوں اور یہاں آنے والے لوگوں کو فی سبیل اﷲ پانی فراہم کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں سے آنے والے خاندانوں کو دریا میں کشتی کے ذریعے سیر کراکر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ دریا میں ضرورت سے زیادہ پانی کی موجودگی، سیلاب کے خطرے کے پیش نظر میں نے عارضی طور پر لوگوں کو تفریح کرانا بند کردیا ہے اور دن بھر ستین جو آستان پر صفائی و ستھرائی کرنے، جھاڑو لگانے، نیم کے درخت کے نیچے رکھے پانی کے مٹکوں کو بھرکر لوگوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ اب تک کی جو تحقیق کی گئی ہے اور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) میں چار سو سال قبل ازبکستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سات درویش آتے رہے، جنہوں نے دریائے کے نزدیک اس چوٹی پر چلہ کاٹا اور سات سہیلیوں کے مزار میں موجود کمرے یا حجرے جسے کہتے ہیں وہاں عبادت کی، جن میں شیخ عبدالحمید سہروردی، شیخ عبداﷲ ہراری، حمزہ بن رافع، یوسف بن بکھری، سیف الدین شیرازی، عبدالحسن خیر خوانی شامل ہیں، جب کہ ایک نام علی ڈنو احمد بصری مقامی درویش لگتا ہے۔ مذکورہ درویش کی بدولت ہی باہر سے آنے والے عبادت گزاروں نے یہاں چلہ کاٹا ہوگا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اس جگہ کو سات سہیلیوں سے منسوب کرنا شروع کردیا۔ تاہم اس حوالے سے آج تک کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر اور روہڑی شہر کو ملانے والے لینس ڈائون برج کے نیچے وسیع علاقے پر کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ چند سال قبل دریائے سندھ میں نہانے والوں کی زندگیاں محفوظ بنانے، ایمرجینسی میں طبی امداد اور ریسکیو آپریشن کرنے کے لیے یہاں نیوی کی جانب سے دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ضرورت پڑنے پر غوطہ خور مذکورہ مقام سے ریسکیو آپریشن کرکے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں۔
خان زمانہ امیر قاسم المعروف نمکین کی دریافت ستین جو آستان بلا شک و شبہہ قدرت کی صناعی اور انسانی فن تعمیر کا شاہ کار ہے، جو کہ خوب صورتی و دل کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دریائے کے سینے پر بہتی کشتیاں چاندنی راتوں میں ایک رومان پرور، سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں جب کہ شام کے وقت ڈھلتے ہوئے آفتاب کی سرخی کا منظر بھی بھلائے نہیں بھولتا، دریائے سندھ کے عینِ وسط میں جزیرے پر قائم ستین جو آستان آج بھی اپنی خوب صورتی و دل کشی کی بدولت ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ستین جو آستان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے، اپنی مرادوں کی برآوری کے لیے ستین جو آستان پر حاضری دینے اور بہ غرض تفریح آنے والوں کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔

تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام
مخدوم پور سے نکلی ٹرین میاں شمیر کے راستے خانیوال جا رکتی ہے۔ شہر میں ایک سٹیشن، ایک جنگلے والی کوٹھی اور ڈھیر ساری یادیں ہیں۔ اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن ہے، کوٹھی شہر کی پہلی بڑی کوٹھی ہے اور یادیں اب گرم ہوا میں ریت کے زروں کی طرح اڑتے اڑتے کبھی ماتھے کی شکنوں میں بیٹھتی ہیں اور کبھی آنکھوں کے کونوں میں پڑاؤ ڈالتی ہیں۔
سول لائنز میں واقع جنگلے والی کوٹھی کی بھی اپنی ہی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں سر ولیم رابرٹس جو پیشے کے اعتبار سے محکمہ زراعت کے افسر تھے، 1906 میں یہاں پہنچے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے یہاں رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی اور یہ کوٹھی تعمیر کروائی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، لکڑی کے پھاٹک جیسے جنگلے کے سبب ولیم رابرٹس اور ان کی کوٹھی سارے شہر میں مشہور ہو گئی۔ روزگار کا سلسلہ بڑھا تو ولیم صاحب کے بیٹے ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس بھی ہندوستان آ گئے۔ کام تو خیر کیا ہونا تھا، خانیوال کی بود و باش انہیں اتنی پسند آئی کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
پاکستان بنا تو انہوں نے جنگلی حیات کے ادارے کو بڑی محبت سے پروان چڑھایا اور The Birds of Pakistan جیسی کتاب لکھی جو اس علاقے میں پائے جانے والے پرندوں کا ایک مستند حوالہ ہے۔ رہ گئی بات رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی، تو اس کا دفتر اب بھی چک شاہانہ روڈ پہ قائم ہے۔
گئے وقتوں کی یاد میں ایک Forgetti صاحب ہیں جو کبھی کبھار یہاں دکھائی دیتے ہیں اور پچھلی صدی میں رابرٹس صاحب کے لگائے ہوئے سو سو سال پرانے کچھ پیڑ ہیں جو وقت کی بھاگ دوڑ سے آزاد ہیں۔
شہر آباد ہونے کی کہانی بھی غلام عباس کے “آنندی” جیسی ہے۔ آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں ایک معمولی گاؤں ہوا کرتا تھا، جسے کہنہ خانیوال کہتے تھے۔ 1865 میں یہاں اسٹیشن بنا اور ریل پہنچی۔ تھوڑا عرصہ گزرا تو ایک سرائے بن گئی جس کے آثار اب بھی دوکانوں کے بیچ بیچ کہیں دکھتے ہیں، پھر جیسے شہر بیدار ہو گیا۔ سات سالوں میں اتنی ترقی ہو ئی کہ گیان دینے کے لئے سکول کھولنا پڑا۔
صدی پلٹی تو لوگوں کو لگا کہ اب ترقی کا سفر تھوڑا دھیما پڑ جائے گا مگر وقت کی عمر کہاں ہوتی ہے جو ماند پڑے۔ 1904 میں رہنے والے صاحب لوگوں کے لئے ریلوے کالونی بنی اور دورے والے بابو کے لئے کینال ریسٹ ہاؤس۔
چار سال گزرے تو لوئر باری دوآب کینال بھی یہاں آن پہنچی۔ اسی نہر کے دفاتر میں بیٹھ کر خانیوال کا پہلا نقشہ بنایا گیا، جس میں ایک طرف پرانا شہر ہے، ایک طرف سول لائنز کچہری اور کلب اور دونوں دنیاؤں کے بیچ میں ریل کی لکیر۔
1911 میں خانیوال کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا اور اگلے سال ہی یہاں پہلا ریلوے ہسپتال بنا۔ آباد کار آتے گئے، چک آباد ہوتے گئے اور پانچ سال بعد خانیوال تحصیل بن گیا۔ 1921 میں یہاں پہلا اینگلو انڈین ورنیکولر سکول کھلا اور 1930 میں سول لائنز کے ساتھ ہی خالصہ ہائی سکول کا افتتاح ہوا۔ جب اتنا کچھ بس گیا تو پھر سنٹرل کوآپریٹو بنک نے بھی اپنا دفتر کھول ڈالا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے بلاکوں میں مختلف مذہب، طبقے اور رویے آتے گئے اور آباد ہو تے گئے۔ 1925 کے خانیوال کے بلاک نمبر 6 میں سناتن دھرم مندر ہوا کرتا تھا، بلاک نمبر 11 میں مرکزی جامع مسجد تھی اور بلاک نمبر 4 میں گورودوارہ سنگھ سبھا۔
تھوڑا وقت گزرا تو گرودوارہ کے ساتھ ہی گورو نانک لائبریری کھل گئی۔ پینتیس کا سن آیا تو نئے قانون کے ساتھ ساتھ خانیوال میں نیا گھاٹ بھی بنا جسے گاربٹ گھاٹ کہا جانے لگا۔
دو سال اور گزرے تو شہر کے ایک متمول شخص، بھوجا رام نے مسافروں کے لئے ایک سرائے بنوائی۔ اسی دیکھا دیکھی میں کچھ اور لوگوں نے سادھوؤں کے لئے کٹیا گھر بھی بنوا دیا۔ پہلے پہلے شہر میں دو شمشان گھاٹ ہوا کرتے تھے۔ آبادی بڑھی تو مردے بھی لاوارث ہونے لگے، ایسے میں کوٹ بیربل سے آگے لاش گھر بنوایا گیا۔
اب کچھ ایسا ہے کہ بلاک نمبر دو کے آریہ سماج مندر اور لکڑی منڈی کے دھرم شالہ کے کچھ کچھ آثار ملتے ہیں۔ گورودوارے کی جگہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں آتش بازی بنتی ہے اور مذہب کا پیلا، گندھک کے پیلے میں رچ بس گیا ہے۔ گھاٹ سمٹتے سمٹتے مٹ گیا ہے۔
جب سے لوگوں نے کھلے دل اور کھلے ماتھے کے ساتھ سفر کرنا چھوڑا، سرائے بھی ویران پڑی ہے۔ جنگلے والی کوٹھی کے سامنے واقع سادھو گھر کی اوپر والی لکڑی کی جعفریاں اب ادھ کھلی آنکھوں سے نیچے نئی دوکانیں دیکھتی ہیں۔ شمشان گھاٹ پہ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں اور رہی بات لاش گھر کی تو اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں زندوں کو گھر نہیں ملتا، وہاں لاش گھر کی جگہ کون چھوڑتا۔
مٹی کی زرخیزی کے سبب اچھے وقتوں میں یہاں پنجاب بھر کی گندم اور کپاس اگتی اور ملتی تھی۔ غلے کے ذخیرے کے لئے گودام تھے اور کپاس کی جننگ کے لئے فیکٹریاں اور کچھ گودام تو اس قدر بڑے تھے کہ ریل کی پٹریاں اندر تک چلی جاتی تھیں، مگر پھر آزادی مل گئی ۔ سوراج مل گیا مگر اپنا اناج نہ ملا۔ پہلے گندم لینے کے لئے اونٹوں کے گلوں میں تختیاں ڈالنا پڑی پھر آہستہ آہستہ ریل کی پٹڑیاں بھی بک گئیں۔
شہر کے آس پاس ہنومان گڑھ اور سردارپور کے گاؤں ہیں جہاں تقسیم سے پہلے کے غیر تقسیم شدہ لوگ رہا کرتے تھے۔
1974 کی بات ہے کہ کینیڈا سے کوئی ہریش صاحب خانیوال آئے اور لوگوں سے پرانے مندروں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے ان کی والدہ نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا ہوا تو وہ اس وقت تک شادی نہیں کرے گا جب تک سردار پور میں ماتھا نہیں ٹیک آئے گا۔ اوپر سے آواز آئی تو تھی کہ ایسا نہیں ہو سکے گا مگر شائد کسی نے سنی نہیں، سو لڑکا سرحد کے اس پار سے ماتھا ٹیکنے اس پار آ پہنچا۔ کافی تلاش کے بعد وہ سردارپور پہنچا، تو مندر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ میزبان اسے مخدوم پور سے لے کر سرائے سدھو تک پھراتے رہے مگر ماتھا ٹیکنے والی جگہ نا ملنا تھی سو نہیں ملی۔
اس ساری ریاضت کے دوران ہریش کے میزبان، امرتسر سے یہاں آکر آباد ہونے والے چوہدری اشرف بندیشہ تھے۔ جب تک وہ خانیوال میں رہا، اشرف صاحب کے گھر والے اپنے اس نامعلوم مہمان کی محبت میں صرف دال ساگ کھاتے رہے اور ہریش کا کھانا دادی خود اپنے ہاتھوں سے بناتی رہی۔ جانے کا وقت آیا تو چوہدری صاحب نے ہریش سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ مہمان کہنے لگا؛
“تکلیف تو نہیں ہوئی لیکن یہ پتہ چل گیا کہ ماں ٹھیک کہتی تھی ۔ ۔ ۔ خانیوال کا تو پانی بھی گھی جیسا ہے”

Butkara Stupa


Butkara Stupa

From Wikipedia, the free encyclopedia
Evolution of the Butkara stupa.
The Butkara Stupa is an important Buddhist stupa in the area of SwatPakistan. It may have been built by the Mauryan emperor Ashoka, but it is generally dated slightly later to the 2nd century BCE.
The stupa was enlarged on five occasions during the following centuries, every time by building over, and encapsulating, the previous structure.

Excavation[edit]

The Indo-Corinthian capital from Butkara Stupa under which a coin of Azes II was found. Dated to 20 BCE or earlier (Turin City Museum of Ancient Art).
Indo-Scythian devotee, Butkara I.
The stupa was excavated by an Italian mission (IsIOAO: Istuto Italiano per l'Africa e l'Oriente), led by archaeologist Domenico Faccenna from 1956, to clarify the various steps of the construction and enlargements. The mission established that the stupa was "monumentalized" by the addition of Hellenistic architectural decorations during the 2nd century BCE, suggesting a direct involvement of the Indo-Greeks, rulers of northwestern India during that period, in the development of Greco-Buddhist architecture.[1]
An Indo-Corinthian capital representing a Buddhist devotee within foliage has been found which had a reliquary and a coins of Azes II buried at its base, securely dating the sculpture to earlier than 20 BCE.[2]
The nearby Hellenistic fortifications of Barikot are also thought to be contemporary.
A large quantity of the artifacts are preserved in the National Museum of Oriental Art and the City Museum of Ancient Art in Turin's Turin City Museum of Ancient Art.